Social Evil essay in urdu

اج کل کے دور میں جب دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے پھر بھی ہمارا معاشرہ کئی سماجی برائیوں کا شکار ہے یہ مسائل نہ صرف ہماری ترقی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں بلکہ ہماری روز مرہ کی زندگی کو بھی مشکل بنا رہے ہیں اج کے اس مضمون میں میں اپ کو بتاؤں گا کہ ان سماجی برائیوں کہ کون کون سے اقسام ہیں اور ان کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے اور یہ کس طرح ہمارے سر میں اثر انداز ہو رہی ہیں

سماجی برائیوں کی تعریف اور ان کے اقسام

سماجی برائیاں ایسی رویے یا حالات ہیں جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں پاکستان میں ان کے چند بڑی مثالیں ہیں کرپشن یعنی کہ بدعنوانی سرکاری دفاتر میں رشوت نوکریوں میں سفارش اور بہت سارے ایسے اقسام جو روز مرہ کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں بہت بدعنوانی کے علاوہ غربت اور بےرخاری بھی ایک بہت بڑی سماجی برائیوں میں سے ہیں جو کہ وسائل کے گیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے ہیں اور اس کے علاوہ جنسی تفریق یعنی کہ مرد اور عورت کو ایک جیسے حقوق نام ملتے ہیں جیسا کہ لڑکیوں کی تعلیم اور کام کرنے پر پابندی ہو یا پھر چائلڈ لیبر جس سے 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو دن رات کام کرنا ہو اور پھر جا کے وہ ایک وقت کی روٹی کھا سکیں اور اس کے علاوہ تعلیم کی کمی جیسے برائیاں شامل ہیں۔بہت سے ہنر بچے ہوتے ہیں جو چائلڈ لیبر کی وجہ سے اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ان کے والدین کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ ان کو پڑھا سکیں۔

جھوٹ بولنا حسد کرنا یا پھر نشے اور چیز ہوں کا استعمال بھی سماجی برائیوں میں شامل ہے یہ بھی ہمارے معاشرے کو بری طرح سے اج بھی متاثر کر رہے ہیں ان کو ختم کرنا بہت ہی زیادہ ضروری ہے۔

سماجی برائیوں کو کیسے ختم کر سکتے ہیں؟

سماجی برائیوں کو ختم کرنے کی شروعات ہمیں اپنے گھر سے کرنی ہوگی سب سے پہلے ہمیں مرد اور عورت دونوں کی برابر قدر کرنی ہوگی اور اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ کسی بھی قسم کی تفریق جائز نہیں اور اس کے علاوہ ہم اگاہی مم چلانی ہوگی جہاں پر ہم لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں بتانا ہوگا اور اس کے علاوہ رضا کا ناکام کرنا ہوگا جس سے مقامی لوگوں کے ساتھ مل جل سکیں اور ان کی کو سماجی برائیوں کے بارے میں اگاہ کریں اور ان سے ہونے والے صنعت کے بارے میں بتائیں اور انہیں یہ بھی بتائیں کہ ہم کس طرح سے سماجی برائیوں سے بچ سکتے ہیں۔بدعنوانی کے خلاف بھی ہمیں اواز اٹھانی ہوگی جو بھی رشوت لے یا دے لا تعلقی کرنی ہوگی اور ایک عملی مثال قائم کرنی ہوگی جس سے بدعنوانی جڑ سے ختم ہو جائے

آخری الفاظ

سماجی برائیاں بہت ہی زیادہ ہیں ہمارے معاشرے میں لیکن ان کا مقابلہ ہم اجتماعی کوششوں سے کر سکتے ہیں کہ جیسے کہ علامہ اقبال نے ایک شہر میں کہا ہے کہ خودی کو بلند کر اتنا کہ ہر تک سے پہلے خدا بندے سے پوچھے خود پوچھے تیری رضا کیا ہے۔

ہمیں اج سے ہی اپنے اپ سے عہد کرنا ہوگا کہ ہم کسی بھی ایک بچے کو تعلیم میں مدد کریں گے چاہے کتابیں خرید کریں اپ فیس دیکھ کر یہاں ایک یا دو دن ہفتے میں اس کو فری میں پڑھا کر اور ہر چھوٹی بڑی عنوانی کے خلاف ہمیں اواز اٹھانی ہوگی کیونکہ تبدیلی کا سفر مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے حرم شمع روشن کرے تاریکی خود بخود مٹ جائے گی

Leave a Comment