تقریر: استاد کی فضیلت
محترم صدرِ مجلس، معزز اساتذہ کرام، والدینِ گرامی، اور میرے عزیز ساتھیو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آج میں جس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں وہ ہے “استاد کی فضیلت”۔ یہ موضوع نہ صرف علمی لحاظ سے اہم ہے بلکہ اخلاقی، سماجی اور روحانی اعتبار سے بھی انتہائی بلند مقام رکھتا ہے۔
میرے محترم سامعین!
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اور اس کو علم کی دولت عطا کی۔ علم وہ نور ہے جس کے ذریعے انسان اپنی زندگی کا مقصد جانتا ہے، صحیح اور غلط میں تمیز کرتا ہے، اور دنیا و آخرت کی فلاح حاصل کرتا ہے۔ لیکن یہ علم انسان تک پہنچتا کیسے ہے؟ اس کا ذریعہ ہے استاد۔ استاد علم کا وہ مینارۂ نور ہے جو انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم، ہدایت، تہذیب اور ترقی کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔
قرآن پاک میں سب سے پہلی وحی کا آغاز جس لفظ سے ہوا، وہ تھا “اقْرَأْ” یعنی “پڑھ”۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں علم اور تعلیم کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ اور جب علم اتنا اہم ہے تو وہ شخصیت جو علم سکھاتی ہے، یعنی استاد، اس کا مقام کیا ہی بلند ہوگا۔
میرے عزیز دوستو!
ایک استاد صرف کتابی علم نہیں دیتا، بلکہ وہ شاگرد کے دل و دماغ کو جلا بخشتا ہے۔ استاد طالب علم کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے، اس کے اخلاق، اس کی سوچ، اس کی رہنمائی، سب استاد کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ استاد ایک باغبان کی مانند ہوتا ہے، جو اپنے شاگردوں کو پودوں کی طرح محبت، محنت اور دعا سے سینچتا ہے، تاکہ وہ کل کو ایک تناور درخت بن کر معاشرے کو سایہ اور پھل دے سکیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
“جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا، میں اس کا غلام ہوں۔”
یہ قول استاد کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
عزیز ساتھیو!
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے جتنے بھی عظیم رہنما، مفکر، سائنسدان، مصلح اور موجد ہوئے ہیں، ان کے پیچھے کسی نہ کسی استاد کی محنت، دعائیں اور رہنمائی ضرور شامل رہی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے اساتذہ، علامہ اقبال کے مرشدین، حتیٰ کہ سقراط اور ارسطو جیسے فلسفیوں نے اپنے شاگردوں کو نئی جہتیں عطا کیں۔
ہمارے نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے بھی خود کو معلم فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
“إنما بعثت معلماً”
“مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔”
(ابن ماجہ)
آپ ﷺ نے دلوں کو بدلا، کردار کو سنوارا، جہالت کو مٹایا، اور ایک ایسی قوم تیار کی جو علم، ایمان اور عمل میں دنیا کی رہنما بن گئی۔
محترم حاضرین!
استاد کا حق والدین کے بعد آتا ہے۔ والدین ہماری جسمانی تربیت کرتے ہیں، لیکن استاد ہماری روحانی، اخلاقی اور فکری تربیت کرتا ہے۔ اسی لیے استاد کو روحانی باپ کہا جاتا ہے۔ استاد کا ادب کرنا، ان کی بات کو غور سے سننا، ان سے دعائیں لینا، اور ان کی خدمت کرنا ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔
آج ہم اگر اپنی قوم کی پستی، معاشرتی برائیوں اور جہالت پر رنجیدہ ہیں تو ہمیں سب سے پہلے استاد کو اس کا جائز مقام دینا ہوگا۔ وہ قومیں جو استاد کا احترام نہیں کرتیں، ان کے علم و ادب، تہذیب و ثقافت اور اخلاق و کردار کا زوال یقینی ہوتا ہے۔
میرے پیارے ساتھیو!
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اساتذہ کی قدر کریں، ان کی محنت کا اعتراف کریں، اور ان کے لیے ہمیشہ دعاگو رہیں۔ ان کی عزت کرنا صرف ایک اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ ایک دینی حکم بھی ہے۔
آخر میں میں اپنی بات چند اشعار اور ایک دعا کے ساتھ ختم کروں گا:
وہ جو دیتے ہیں ہمیں علم کا نور
ان کے دم سے ہی ہے روشن ہر دور
وہ جو بناتے ہیں انسان کو انسان
ان کا رتبہ ہے خدا کے بعد سب سے اونچا
“اے اللہ! ہمارے تمام اساتذہ کی مغفرت فرما، ان کی زندگیاں سلامت رکھ، ان کے درجات بلند فرما، اور ہمیں ان کی قدر کرنے والا بنا۔ آمین!”
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔