سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 19 ستمبر 1960ء کو طے پایا، جو دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں تشکیل دیا گیا۔ یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعات کو حل کرنے کا ذریعہ ہے، بلکہ یہ خطے میں امن کی بقا کے لیے بھی اہم ہے۔
تاریخی پس منظر
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد، پاکستان کے زرعی نظام کو درپیش سب سے بڑا خطرہ بھارت کی جانب سے دریاؤں کے پانی کو روکنا تھا۔ 1948ء میں بھارت نے مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا پانی بند کر دیا، جس سے پاکستانی زراعت کو شدید خطرات لاحق ہوئے۔ اس بحران کے بعد، عالمی بینک نے ثالثی کی اور 12 سال کی بات چیت کے بعد 1960ء میں یہ معاہدہ طے پایا۔
معاہدے کی کلیدی شرائط
دریاؤں کی تقسیم : مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا 80 فیصد پانی پاکستان کو دیا گیا، جبکہ مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا کنٹرول بھارت کے حوالے کیا گیا۔
پن بجلی کے منصوبے : بھارت کو مغربی دریاؤں پر محدود پیمانے پر پن بجلی بنانے کی اجازت دی گئی، لیکن پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرنے یا ذخیرہ کرنے کی ممانعت ہے۔
مستقل انڈس کمیشن : دونوں ممالک کے کمشنرز سالانہ اجلاسوں میں پانی کے بہاؤ، منصوبوں، اور تنازعات پر تکنیکی سطح پر بات چیت کرتے ہیں۔
تنازعات اور حل کے طریقے
معاہدے کے باوجود بھارت کی جانب سے مغربی دریاؤں پر دو ڈینز کی تعمیر جسے بلگار اور کشن گنگا دن بنانا شروع کیے سپر پاکستان نے اعتراض اٹھائے 2007 میں عالمی بینک اچھا دلگر کا تنازہ حل ہوا جب اس قسم گنگا کا معاملہ عدالت تک پہنچ چکا ہے کے باوجود معاہدہ 1965 کو 1971 کی جنگوں کے دوران بھی بر کر رہا جو کہ اس کی مضبوطی کی دلیل ہے۔
حالیہ کشیدگی اور معاہدے کا مستقبل
2025 میں پہلگام حملے کے بعد بھارت نے یک طرفہ طور پر معاہدہ معتل کرنے کا اعلان کر دیا جو کہ بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے کیونکہ معاہدے صرف دونوں فرقین کی باہمی رضامندی سے ہی ختم ہو سکتے ہیں اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاؤں پر ڈیمز بنانے کی بھی کوشش جاری ہے جو کہ پاکستان کے لیے ایک بہت ہی بڑا مسائل اور ابی سلامتی کا خطرہ ہے۔
پاکستان کے لیے چیلنجز اور تجاویز
پاکستان کو اپنے آبی وسائل کے تحفظ کے لیے مزید ڈیمز کی تعمیر پر توجہ دینا ہوگی۔ ماہرین کے مطابق، بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں ڈیمز کی کمی نے پانی کے ذخیرے کو مشکل بنا دیا ہے۔ نیز، سفارت کاری کے ذریعے عالمی سطح پر بھارت کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنا بھی ضروری ہے۔
نتیجہ
سندھ طاس معاہدہ خطے میں پانی کی جنگ کو روکنے کا ایک کامیاب معاہدہ ہے، جو 6 دہائیوں سے زائد عرصے سے قائم ہے۔ تاہم، سیاسی کشیدگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر، دونوں ممالک کو باہمی تعاون اور معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ آبی ذخائر کو جدید خطوط پر استوار کرے اور بین الاقوامی فورمز پر اپنے موقف کو مؤثر طریقے سے پیش کرے۔